June, 12-18, 1987
دھماکہ قلعہ لچھمن سنگھ کے بارے میں صادق جعفری کی تحقیقاتی رپورٹ
علامہ احسان الٰہی ظہیر اور دوسرے دس افراد کے قاتل کون ہیں؟
مارچ۲۳، 87ء کو قلعہ لچھمن سنگھ لاہور میں جمعیت اہلحدیث کے جلسے میں دھماکہ کرنے والے اب تک گرفتار نہیں ہوئے‘ نہ ہی اب تک یہ بات سامنے آسکی کہ اس ’’سیاسی دھماکہ‘‘ کے محرکات کیا تھے، لہٰذا کیس کا چالان پیش نہیں کیا جا سکا ۔
دھماکہ کے فوراً بعد ایک پولیس افسر نے کہا تھا’’دنیا دیکھے گی کہ اس مرتبہ پنجاب پولیس نے یہ کیس حل کر لیا ۔ ہم کامیابی سے بہت قریب ہیں ‘‘ ۔
دھماکہ کے دو ماہ بعد، اب اعلیٰ پولیس افسران کا کہنا ہے ۔
’’اب ہماری تفتیش ایک خاص نکتے پر مر کوز ہو چکی ہے اور توقع ہے کہ کچھ ہی دنوں میں مجرم پکڑے جائیں گے‘‘ لیکن یہ بھی کہ ’’فی الحال وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ دھماکہ کا محرک سیاسی تھا یا نہیں ‘‘ ۔
تا ہم جمعیت اہلحدیث کے بعض عہدیداروں کا خیال ہے کہ پولیس شروع سے یہ جانتی تھی کہ دھماکہ کس نے کرایا لیکن جان بوجھ کر مجرمان کو تحفظ دے رہی ہے ۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے قتل سے لیکر احسان الہٰی ظہیر کے قتل تک، ایک ہی قسم کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں ۔ تاہم کسی بھی کیس کے حقائق کبھی سامنے نہیں آسکے ۔ اور ہر مرتبہ ایک متنازعہ سوال پوری شدت سے سامنے آیا’’کیا سرکاری تفتیشی ذرائع ہمیشہ مجرموں تک پہنچنے میں نا کام رہتے ہیں یا واقعی وہ سب کچھ جانتے ہوئے مجرموں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب آج تک نہیں دیا جاسکا ۔ ۲۴مارچ کے دھماکہ کے سلسلے میں ایک اضافی بات یہ ہے کہ جرم کے طریقہ کار کے بارے میں بھی کوئی متفقہ رائے قائم نہیں کی جا سکی ۔ جلسہ میں بم کو ن لایا؟کیا آتشگیر مادہ پہلے سے سٹیج کے نیچے زمین میں دبایا گیا تھا؟ یا گلدان میں رکھ کر لایا گیا ۔ ؟ پولیس کی طرف سے گلدان کی کہانی پر اصرار کے با وجود زیادہ تر واقعاتی شہا دتیں اس کے خلاف جاتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ گلدان کے لائے جانے کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے ۔ چند لوگوں نے ایک گلدان دیکھا ضرور تھا مگر پھر زخمیوں اور مرنے والوں کے جسموں سے اس گلدان کا کوئی ٹکڑا برآمد نہیں ہوا ۔ صرف بارودبرآمدہوا ۔
قلعہ لچھمن سنگھ راوی روڈ کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے ۔ چوک فوارہ جہاں جلسے کیلئے سٹیج بنایا گیا تھا اور جہاں دھماکہ ہوا ۔ چاروں طرف سے عمارتوں میں گھرا ہوا ہے ۔ اطراف میں نکلنے والی سڑکیں اور گلیاں اجنبی لوگوں سے زیادہ مانوس دکھائی نہیں دیتیں ۔ دکانداروں کا کہناہے کہ عام حالات میں کسی اجنبی کی آمد کو فوراً محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس بات کو تسلیم کرنا بہت مشکل ہے کہ پولیس اب تک سٹیج تک بم لانے والے کا سراغ نہیں لگا سکی ۔ مذکورہ تقریب اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ’’جلسہ عام‘‘ ضرور تھی مگر یہ جلسہ ایک خاص مذہبی نقطہ نظر رکھنے والی جماعت کی مقامی شاخ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا اور اس میں شریک ہونے والے چند سو افراد میں زیادہ تر لوگ پہلے سے ایک دوسرے سے شنا سا تھے ان کے درمیان کسی اجنبی کو فوراً شناخت کیا جا سکتا تھا ۔ ایسے حالات میں پولیس کیلئے مجرموں کی نشاندہی کرنا نسبتاً زیادہ آسان تھا، خاص طور پر جبکہ کاغذات کے مطابق مقامی تھانے کا ایس ایچ و اپنی گارد سمیت جلسے کے دوران جائے حادثہ پر موجود تھا ویسے(بھی جلسہ گاہ سے تھانہ راوی روڈ کی عمارت کا فاصلہ نصف کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے) ۔
کسی پبلک مقام پر ہونے والے کسی بھی نوعیت کے اجتماع کے لئے انتظامیہ کے حکام سے جو پیشگی اجازت لی جاتی ہے اس کا قانونی جواز یہی ہوتا ہے کہ پولیس کو مذکورہ جگہ پر آنے والے شہریوں کی جان کی حفاظت کی غرض سے پیشگی انتظامات کرنے کی مہلت دی جا سکے ۔ چنانچہ بم سٹیج کے نیچے پہلے سے دبایا گیا ہو یا گلدان میں لایا گیا ہو، دونوں صورتوں میں یہ نکتہ اپنی جگہ بر قرار رہتا ہے کہ پولیس کے حفاظتی انتظامات ناقص تھے ۔ کیا تھانہ راوی روڈ کی گارد واقعی جائے حادثہ پر موجود تھی ۔ اگر تھی تو یقیناً گلدان میں لایا جانے والا بم ان کی ناکوں کے عین نیچے سے گذار کر لایا گیا ہوگا ۔
تفتیشی ادارے حقائق جانتے ہیں یا نہیں ، یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ کیس حل نہیں ہو سکا ۔ دھماکہ کے مجرم آزاد ہیں ، اور یقیناً خاموش نہیں بیٹھے ہوں گے ۔ 23مارچ کے بعد اب تک صوبے میں تین دھماکے اور ہو چکے ہیں ، کون کہہ سکتا ہے کہ مزید کتنے دھماکے ہوں گے ۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دھماکوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ عوام کے ذہنوں میں موجود کنفیوژن اور خوف و ہراس میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا اور سوال اپنی جگہ پر باقی رہیں گے ۔
قتل و غارت گری کے اس کھیل میں کون معصوم ہے اور کون مجرم ۔ کون مدعی ہے اور کون منصف، کس کو فائدہ پہنچا اور کس کو نقصان، کس دست قاتل کی ایک جنبش درجنوں خاندانوں کیلئے تباہی کا پیغام لائی ۔ بے گناہ افراد جو اپنے گھروں سے موت کا سامنا کرنے نہیں نکلے تھے،کیوں لقمہ اجل بن گئے ۔ کتنے دل افسردہ ہوئے کتنی آنکھیں بے نور ہوئیں ۔ کتنے بد نصیب دل دوسروں کی موت کا سامان کر کے بھی دھڑکتے رہے ۔ یہ سارا حساب کون کرے گا ۔ بھوسے کے ڈھیر سے سوئی کون تلاش کرے گا؟
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشان
نہ سرخی لب خنجرنہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
اور
نہ مدعی،نہ شہادت، حساب پاک ہوا
مارچ کے دھماکہ کے سلسلے میں پولیس اب تک 15 افراد کو ’’شامل تفتیش‘‘ کر چکی ہے مگر پولیس کے بقول ان میں کوئی مجرم ثابت نہیں ہو سکا ۔ یہی ہوتا آیا ہے ۔ ’’شامل تفتیش‘‘ افراد اور پولیس کی ضمنی رپورٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، آخر کار یا تو پولیس کسی بے گناہ کی گردن میں پھندا فٹ کرنے میں کامیاب ہو جا تی ہے، یا آخری صفحہ پر ’’غیر ملکی ہاتھ‘‘ لکھ کر فائل ہمیشہ کیلئے بند کر دی جاتی ہے ۔
کیا اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا ۔ ؟
علامہ مرحوم نے دھماکہ کے بارے میں کسی پر شبہے کا اظہارنہیں کیا ۔ ابتسام الہٰی
آئیے ہم اپنے طور پر اس کیس کی تفصیلات اور جزئیات کا جائزہ لیں ۔ اس کے لئے ایک ممکن راستہ کیس سے متعلق لوگوں سے ملاقات اور تفصیلی گفتگو ہے لیکن سب سے پہلے خود علامہ احسان الٰہی مرحوم کی زندگی کا مختصر جائزہ بعض اہم نکات کو سامنے لانے میں مدد گار ثابت ہو سکتاہے ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کے خاندان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ان کے والد حاجی ظہور الٰہی گوجرانوالہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں ۔علمیت،مقبولیت اور مالی حیثیت کے جس مقام پر مرحوم احسان الٰہی ظہیر پہنچے تھے یہ سب ان کی ذاتی محنت کا نتیجہ تھا انہیں وراثت میں کچھ زیادہ نہیں ملا تھا ۔
سال قبل نوجوان احسان الٰہی ظہیر نے محلہ چابک۲۰ سوراں رنگ محل میں قیام اختیار کیا اور چینیاں والی مسجد میں خطابت شروع کی ۔ انکے آئیڈئل عطا اللہ شاہ بخاری تھے ۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے سب سے قریبی دوست میر اکرم کی شراکت میں موچی گیٹ میں ’’میرمعاذ جنرل سٹور‘‘ کے نام سے دکان کھولی ۔ بعد میں انہوں نے زرعی آلات کا کاروبار شروع کیا اورجنرل سٹور ختم ہوگیا ۔
کاروبارو سیع ہوتا گیا،میرا کرم ہی کے اشتراک سے برانڈرتھ روڈ پر چوک دالگراں پر زرعی آلات کی خریدو فروخت کے علاوہ درآمد برآمد بھی کرنے لگے ۔ اس کے علاوہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کام بھی کیا اور اسی طرح جب احسان الٰہی ظہیرنے ۴۴ سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا توان کا ایک وسیع کاروبارتھا اور شہرکے کئی علاقوں میں جائیداد تھی ۔ لیکن یہ ان کی زندگی کا
صرف ایک پہلو ہے ۔
علامہ مرحوم نے علمی سرگرمیوں کا آغاز علامہ عطا اللہ حنیف کے رسالہ ’’الاعتصام‘‘ میں مضامین لکھنے سے کیا ۔ اب سے15سال قبل انہوں نے ’’ادارہ ترجمان السنہ‘‘ کی بنیاد رکھی ایک ذاتی ماہنامہ ’’ترجمان الحدیث‘‘ جاری کیا ۔ اسی دوران انہوں نے کراچی سے ایل ایل بی کیا ۔ پنچاب یونیورسٹی سے اردو، اسلامیات، فارسی،سیاسیات،فلسفہ اور تاریخ اور عربی میں ایم اے کئے ۔ مدینہ
یونیورسٹی سے شریعت پر ڈگری حاصل کی ۔ عربی زبان پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا 15کتابیں لکھیں ، سب کی سب عربی میں ۔ ان کا خاص موضوع ’’فرق‘‘ تھا ۔ پہلی کتاب ’’القادیانیہ‘‘ تھی اس کے بعد بریلوی، اسماعیلیہ،شیعہ،بہائی،وہابی فرقوں پر کتابیں لکھیں ۔ یہ کتابیں حوالوں کے مجموعے ہیں اور پاکستان اور کئی عرب مسلمان ملکوں میں پڑھائی جاتی ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کی تمام یونیورسٹیوں میں ان کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ ان کی آخری کتاب’’التصوف‘‘ کی دوسری جلد تھی ۔ پہلی جلد پچھلے سال سے پڑھائی جا رہی ہے ۔ یہ کتابیں لاکھوں کی تعداد میں شاءع ہوئیں ۔ علامہ کی صرف ایک کتاب اردو زبان میں ہے جو دراصل ماہانہ ’’الاعتصام‘‘ میں ان کے لکھے ہوئے اداریوں کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب کا نام ’’مرزائیت اور اسلام‘‘ ہے ۔ جمعیت اہلحدیث کی طرف سے انہوں نے ایک ہفت روزہ’’الاسلام‘‘ بھی شروع کیا ۔
علامہ مرحوم عراق کی حمایت کرنے والے واحد عالم
نہیں تھے
علامہ احسان الٰہی ظہیر نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز1972ء میں تحریک استقلال میں شمولیت سے کیا ۔ اس زمانے میں آغا شورش کا شمیری سے بہت دوستی تھی اور پنجاب کے گورنر مصطفٰی کھر سے شدید دشمنی ۔ لیکن اس سے بھی پہلے مدینہ یونیورسٹی سے واپسی کے بعد، 1967 ء میں علامہ مرحوم نے ایوب خان کے خلاف تحریک کے سلسلے میں ایک جلسہ عام میں اپنی پہلی سیاسی تقریر کی تھی ۔ 1977ء میں قصور سے قومی اتحاد کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور رانا پھول محمد سے مقابلے میں ہار گئے ۔ تاہم بعد میں مارشل لاء عدالتوں نے جن19 نشستوں سے دھاندلی ثابت کی یہ نشست ان میں سے ایک تھی ۔ جب تحریک استقلال نے قومی اتحاد سے علیحدگی اختیار کی تو علامہ نے تحریک استقلال کو چھوڑ دیا اور جمعیت اہلحدیث میں جس سے مسلک کے اعتبار سے ان کا تعلق بہت پرانا تھا، باقاعدہ رکنیت اختیار کر کے جلد ہی اپنا ایک مقام پیداکر لیا ۔ 1983ءمیں جمعیت اہلحدیث کے انتخابات میں سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ۔ اس دوران ان کی بہ حیثیت خطیب مقبولیت میں بھی زبردست اضافہ ہوا چینیاں والی مسجد میں خطبہ جمعہ آخر تک جاری رکھا ۔ خطبوں میں حاضر ی ہزاروں کی تعداد میں ہوتی تھی ۔
مالی سوجھ بوجھ کی بدولت چینیاں والی مسجد کا ایک ٹرسٹ شروع میں قائم کیا تھا جس کے ذریعے مسجد کے اخراجات کو ایک با قا عدہ خود کفیل حیثیت دی گئی ۔ جمعیت اہلحدیث میں آکر ایک بڑا ادارہ ’’اہلحد یث ٹرسٹ‘‘ کے نام سے قائم کیا جس کے ذریعے پہلے 50لوئر مال پر جمعیت اہلحدیث کا دفتر قائم کیا ۔ ایک سال قبل 53 لارنس روڈ پر ایک وسیع وعریض جائیداد خریدی جس پر واقع پرانی عمارت گرادی گئی اور8کروڑ روپے لاگت کے منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ۔ اہلحدیث کمپلکس، پر اب تک ایک کروڑ روپے خرچ کئے جا چکے ہیں جن میں 70 لاکھ روپے کی جائیداد کی خرید اور ایک عظیم الشان شیڈ کی تعمیر شامل ہے ۔
ا”اہلحدیث ٹرسٹ‘‘ میں شامل زیادہ تر حضرات علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں اور بیشتر رنگ محل میں کپڑے یا سونے کے تاجر ہیں ۔ ٹرسٹ کے ارکان میں چودھری عبدالعزیز چار ٹرڈ اکاءوٹنٹ،حاجی یونس قصوری،میراکرم،حاجی اسماعیل، میر اشرف ،شیخ منظور، حاجی ارشد،حاجی ایوب اور ملک ارشد شامل ہیں ۔ ٹرسٹ کے چیئر مین علامہ احسان الٰہی ظہیر خود تھے اور ان کی وفات کے بعد اب ٹرسٹ کے ارکان نے بیگم علامہ احسان الٰہی ظہیر کو چیئر مین منتخب کر لیا ہے ۔
علامہ ظہیر ’’اہلحدیث کمپلکس‘‘ میں دوسری چیزوں کے علاوہ اشاعت کا ایک مکمل ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ اردو، عربی اور انگریزی کا کام کرنے والے ایک 8000وی ۔ ایم ۔ سی کمپیوٹر حادثہ سے چند روز قبل سعودی عرب سے منگوایا گیا تھا ایک پریس منگوانے کا منصوبہ تھا اور ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک معیاری ہفت روزہ عربی اور انگریزی زبانوں میں شاءع کرنا چاہتے تھے ۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر نے اپنی زندگی میں بے تحاشہ سفر کیا ۔ ان کے دوستوں کا اندازہ ہے کہ یہ سفر مجموعی طور پر دس لاکھ میل طویل تھے اور ان میں درجن سے زائد بار سعادت حج شامل ہے ۔ پہلی مرتبہ وہ سعودی عرب اس وقت گئے جب شاہ فیصل نے ان کے ایک خط کے جواب میں انہیں سعودی عرب آنے کی دعوت دی ۔ اس کے بعد انہوں نے سعودی عرب، عراق،مصر،کویت،برطانیہ،امریکہ اور یورپی اور افریقی ممالک کے بہت سے دورے کئے ۔ دنیا بھر میں ان کے قاری اور معتقد ین موجود تھے ۔ سعودی عرب کا شاہی خاندان انہیں بہت عزیز رکھتا تھا ۔ شیخ ابن باز مفتی اعظم سعودی عرب،شہزادہ سلطان احمد وزیر دفاع، شہزادہ ناءف، ریاض یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبداللہ عبد المحسن الترکی اور مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبداللہ صالح ان کے ذاتی دوستوں میں سے تھے ۔ حادثہ کے فوراً بعدشاہ فہدنے خصوصی طیارہ بھیج کر علاج کیلئے انہیں ریاض بلوایا ۔ عراق کے صدر صدام حسین علامہ مرحوم کی بہت عزت کرتے تھے حادثہ پر انہوں نے بھی ایک ٹیلیکس پیغام کے ذریعے انہیں علاج کیلئے عراق بلوانے کی پیشکش کی اور ان کے انتقال پر ان کے سو گوار خاندان کو دنیا بھر سے جو درجنوں تعزیتی پیغام وصول ہوئے ان میں صدام حسین کا ٹیلیکس بھی تھا ۔ عراق ٹیلی ویژن نے ان کی16 تقریریں ریکارڈ کی تھیں ۔ جو جمعہ کے روز مذہبی پروگراموں میں دکھائی جاتی تھیں ۔ عراق کے وزیر انصاف عبداللہ فاضل سے بہت قریبی دوستی تھی اور وہ دو مرتبہ ان سے ملنے پاکستان بھی آئے ۔ علامہ مرحوم نے امریکہ کی یونیورسٹیوں میں عربی طلبا میں زبردست مقبولیت حاصل کی اور وہاں لیکچر دئیے ۔ رابطہ عالم الاسلامی سے تعاون مسلسل برقراررہا ۔ رابطہ کے شیخ علی الحرکان مرحوم سے بھی قریبی دوست تھی ۔ عربی بالکل اہل زبان کی طرح بولتے تھے عرب ملکوں میں تقاریر کے دوران عرب علم بے اختیار کہہ اٹھتے تھے کہ اتنی فصیح و بلیغ تقریر کی قدرت اہل زبان کو بھی کم نصیب ہوتی ہے ۔ مصر میں احسان الٰہی ظہیر ایک پسندیدہ ادیب کی حیثیت سے مقبول ہیں ان کی کتابیں ہر اہم کتب خانے سے دستیاب ہیں ۔
ابتدائی دنوں میں علامہ احسان الٰہی ظہیر بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مداح تھے ا ور اکثر ان کے گھر جا کر فیض حاصل کرتے تھے ۔ مولانا کی وفات کے بعد علامہ ظہیر نے یہ بزرگانہ تعلق پاکستان جمہوری پارٹی کے سربراہ نواب زادہ نصراللہ خان میں ڈھونڈا جو آخر وقت تک جاری رہا ۔ نواب زادہ صاحب کو اکثر یہ کہتے سنا گیا کہ ’’میرے دو بیٹوں ، مولانا فضل الرحمٰن اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کا مستقبل بہت روشن ہے‘‘ نواب زادہ صاحب1988ء میں علامہ ظہیر کی الیکشن کی مہم میں انکی مددکرنے قصور بھی گئے تھے ۔ حادثہ کے بعد نواب زادہ صاحبجب میو ہسپتال میں ان کی عیادت کیلئے آئے تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر زارو قطار رو پڑے ۔
اپنی زندگی کے آخری تین سال میں علامہ احسان الٰہی ظہیر ایم آر ڈی سے بہت قریب ہو گئے تھے اور صوبے بھر میں ایم آر ڈی کے مختلف جلسوں میں ان کی تقاریر بہت مقبول ہوئیں ۔ صدر ضیاء الحق کے خلاف سب سے تیز اور تیکھی زبان استعمال کرتے ۔ شریعت بل کے موضوع پر علامہ ظہیر نے اپنا موقف پوری گھن گرج کے ساتھ پیش کیا ا ور اس مجوزہ بل کے خلاف ایک محاذ ترتیب دیا ۔ اس بات کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ جمعیت اہلحدیث نے علامہ ظہیر کی قیادت کے پچھلے چار برسوں میں بے پناہ ترقی کی اور ملک بھر میں اس کے ارکان کی تعداد اور مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ۔ جمعیت کی ایک شاخ بنگلہ دیش اور ایک بھارت میں قائم کی گئی ۔ اس سال عید کے بعد علامہ ظہیر بھارت جانے والے تھے ۔
موجودہ حکومت نے علامہ مرحوم کو عرب ملکوں میں ایمبسیڈرایٹ آل بنانے کی پیشکش کی تھی
علامہ ظہیر کے ایک بھائی ڈاکٹر فضل الٰہی ریاض یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں ۔ دوسرے بھائی عابد الٰہی نے حال ہی میں ریاض یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے ۔ ایک بھائی شکور الٰہی گوجرانوالہ میں ہی والد کے ساتھ کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں اور جمعیت اہلحدیث کے کاموں میں بہت فعال ہیں ۔ ایک اور بھائی محبوب الٰہی حیدر آباد میں مقیم ہیں ۔
ابتسام الٰہی ظہیر
علامہ ظہیر کے پس ماند گان میں بیوہ اور آٹھ بچے ہیں ۔ پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے ۔ بڑی تین بیٹیوں کی نسبت خاندان میں طے ہو چکی ہے سب سے بڑے صاحب زادے ابتسام الٰہی کی عمر15 برس ہے اور انہوں نے حال ہی میں میٹرک کا امتحان دیا ہے ۔
ابتسام الٰہی ظہیر کو اپنے والد کا ساتھ ان کے غیر ملکی دوروں کے دوران بھی نصیب رہا ۔ ابتسام دیکھنے میں اپنی عمر سے بڑے نظر آتے ہیں اور حافظہ تیز ہونے کی بدولت انہیں اپنے والد کے بہت سے امور زبانی یاد ہیں ۔ بڑے فخر سے اپنے والد کا ذکر کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ علامہ مرحوم نے حال ہی میں اپنی لائبریری گھر سے جمعیت اہلحدیث کے لوئر مال کے دفتر میں منتقل کر دی تھی اور نشست کا اہتمام بھی زیادہ تر دفتر ہی میں کرنے لگے تھے ۔ آخری دنوں میں ’’سوشلزم‘‘ کے موضوع پر ایک کتاب شروع کی تھی جس کا کچھ حصہ تحریر کر چکے تھے ۔ یہ تحریر جمعیت کے موجودہ جنرل سیکر ٹری پروفیسر ساجد میر کے پاس ہے ۔ ابتسام نے کہاکہ ان کے والد کو نوجوانوں سے بہت لگاءو تھا اور جمعیت اہلحدیث کی یوتھ فورس انہوں نے ہی قائم کی تھی ۔ علامہ ظہیر تحریر و تالیف کا کام زیادہ تر رات کو کرتے تھے اور عام طور پردو،تین بجے سونے کیلئے جاتے تھے ۔ ابتسام دو مرتبہ اپنے والد کے ساتھ سعودی عرب، عراق،مصر،برطانیہ اور امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں اور ان دوروں کے موقع پر اپنے والدکے وسیع تعلقات اور خاطر تواضع کا ذکر کرتے ہیں ۔ انگریزوں کے بارے میں اپنے والد کا یہ قول پیش کرتے ہیں ۔ ’’انگریز بظاہر بہت شریف لوگ ہیں لیکن یہ ساری شرافت پاکستان کا سب مال و دولت لوٹنے کے بعد آئی ہے ۔ ‘‘
اپنے والد کی طبیعت کے بارے میں ابتسام کہتے ہیں کہ گھر میں بھی علامہ مرحوم کا مزاج سخت رہتا تھا ۔ لیکن دوسرے کی تکلیف دیکھ کر فوراً نرم پڑ جاتے تھے ۔ اندر سے نرم دل تھے،تلخ بات کو زیادہ دیر تک یاد نہیں رکھتے تھے ۔ دوستوں کا حلقہ اور دستر خوان بہت وسیع تھا ۔ گھر میں جو وقت گزارتے وہ یا دوستوں سے با المشافہ اور یا ٹیلیفون پر گفتگو میں گذرتا تھا ۔ کھلے دل کے مالک تھے کوئی مانگنے والا کبھی خالی نہیں جاتا تھا ۔ خود اپنی ابتدائی زندگی میں بہت غربت دیکھی مگر والدین سے کوئی پیسہ نہیں لیا ۔
اپنے والد کی زندگی کے آخری دنوں کا ذکر کرتے ہوئے ابتسام نے کہا کہ مرحوم شریعت بل کی مخالفت میں بہت پر جوش تھے اور انہوں نے اس سلسلے میں کافی تحقیقی کام بھی کیا تھا ۔ مثلاً جماعت اسلامی کے ایک رہنما خلیل حامدی کا عرب ممالک کے اخبارات میں چھپنے والا انٹرویو حاصل کیا جس میں انہوں ننے دعویٰ کیاتھا کہ شریعت بل جماعت اسلامی کے سنیٹروں نے پیش کیا جبکہ دراصل یہ بل سنیٹر قاضی عبدالطیف نے پیش کیا تھا ۔ ابتسام کا کہنا ہے کہ علامہ مرحوم کے خیال میں شریعت بل کا مقصد جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کو طول دینا تھا اور اور ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ دراصل ضیاء الحق اور جونیجو کی آپس کی لڑائی ہے ۔ ‘‘
جنگ فورم میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کی پر جوش تقریر کے بعد گھرواپسی پران کے سیاست دان دوستوں کی ایک بڑی تعداد نے گھرپر آکر انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ اب شریعت بل کا زور ختم ہو جائے گا ۔ ابتسام کا کہنا ہے کہ جنگ فورم کے ہال سے کا روائی کی ریکارڈنگ والی ویڈیو کیسٹ کی چوری کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ نے کہا’’یہ چوری متحدہ شریعت محاذ کی شکست کی نشانی ہے اور اب وہ ہمارا سامنا نہیں کر سکیں گے ۔ ‘‘
ابتسام کا یہ بھی کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد سے ان کے والد کے دیرینہ تعلقات تھے مگر یہ تعلقات جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی وجہ سے متاثر ہوئے ۔ علامہ صاحب جنرل ضیاء الحق کے شدید مخالفین میں سے تھے اور یہ کہ ’’یہ مخالفت اس لئے بہت زیادہ اہم تھی کہ یہ ایک مذہبی عالم کی طرف سے تھی ۔ ‘‘ ابتسام نے کہا کہ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ ’’جنرل ضیاء الحق انہیں صرف اس لئے گرفتار نہیں کر سکتے کہ سعودی عرب کی حکومت اس پر خوش نہیں ہوگی‘‘ ۔ ابتسام نے اپنے والد کا یہ قول بھی دہرایا ’’قائد اعظم کے تینوں فرمان تین جرنیلوں نے ختم کر دیئے ۔ ایوب خان کے دور میں تنظیم ختم ہوئی،یحییٰ کے دور میں اتحاد،اور ضیاء الحق کے دور میں ایمان ختم ہوگیا ۔ ‘‘
ابتسام نے کہاکہ جنگ فورم سے واپسی پر ان کے والد نے مولانا کوثر نیازی سے فون پر بات کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ تین سنیٹروں (جن میں سے ایک مولاناکوثرنیازی خود تھے )کے حلف نامے، اس موضوع پر کہ جماعت اسلامی کے سنیٹروں نے شریعت بل میں ترامیم سنیٹ میں پیش نہیں کی تھیں ،جلد از جلد انہیں پہنچا دیں ۔ اور ان سے یہ بھی کہا کہ وہ خیال رکھیں کہ یہ ترامیم کس تاریخ کو سینٹ میں پیش کی جائیں گی ۔
حادثہ کے دن کو یاد کرتے ہوئے ابتسام نے کہ ان کے والد اس روز پسرور میں جلسے سے خطاب کر کے شام کوہی لاہور پہنچے تھے وہ تھکے ہوئے تھے اور ان کی طبیعت بھی خراب تھی ۔ انہوں نے اپنی دادی سے کہا کہ ’’ میں تھک گیا ہوں ،میرے لئے دعا کیجئے ۔ ‘‘ ان کا دل قلعہ لچھمن سنگھ جا نے کو نہیں چاہ رہا تھا مگر وہ وہاں کی یوتھ فورس کے عہدیداروں سے وعدہ کر چکے تھے پھر مولانا شفیق پسروی نے بھی اصرار کیا تو وہ جانے پر تیار ہو گئے ۔
دھماکہ کے بعد ابتسام نے اپنے والد سے میو ہسپتال میں کئی مرتبہ ملاقات کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ علامہ مرحوم نے کم از کم ان سے اس موضوع پر بات نہیں کی کہ دھماکہ کے سلسلے میں ان کا شبہ کس طرف تھا ۔ تاہم ابتسام نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ علامہ صاحب کے چار روز تک میو ہسپتال میں قیام کے دوران پولیس نے ان سے بیان نہیں لیا ۔ حالانکہ ان کی طبیعت ٹھیک تھی اور انہوں نے بہت سے لوگوں اور اپنے اخبار نویس دوستوں سے ملاقات کی تھی ۔
میر اکرم
علامہ احسان الٰہی ظہیر کے سب سے قریبی دوست میر اکرم علامہ مرحوم کے دکھ سکھ کے ساتھی اور کاروبار میں ان کے حصہ دار ہیں ۔ اہلحدیث ٹرسٹ کے اہم رکن بھی ہیں غیر ملکی دوروں میں زیادہ تر ان کے ساتھ رہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ تقریباً پونے دو لاکھ میل کا سفر انہوں نے علامہ مر حوم کے ساتھ کیا ۔
اپنے دوست کے سیاسی رجحانات کا ذکر کرتے ہوئے میراکرم نے کہ اکہ جنرل ضیا ء الحق نے بر سر اقتدار آکر نفاد اسلام کے جو وعدے کئے تھے ان کی بنا پر شروع میں علامہ مرحوم کو ان سے کافی توقعات تھی لیکن اس کے باوجود ابتداء ہی میں جنرل ضیاء نے علامہ مرحوم کو عرب ملکوں کے لئے ’’ایمبسیڈر ایٹ آل‘‘ بنانے کی جو پیش کش کی تھی اسے علامہ نے مسترد کر دیا تھا ۔ میرا اکرم خود بھی ایک موقع پر علامہ صاحب کے ساتھ جنرل ضیاء الحق سے ملنے کے لئے گئے تھے تاہم بعد میں میر اکرم کے بقول، جنرل ضیاء الحق کی طرف سے اپنے وعدوں کی مسلسل خلاف ورزی پر علامہ ظہیر ان کے سخت مخالف ہو گئے ۔ جس پر جنرل ضیاء نے جمعیت اہلحدیث میں علامہ صاحب کے مخالف گروہ کے لوگوں کی سر پرستی کی ان سے ایک متوازی جمعیت اہلحدیث بنوائی اور ان میں سے معین الدین لکھوی کو اپنی مجلس شوریٰ میں جگہ دی ۔
جلسہ میں پولیس کے حفاظتی انتظامات ناقص تھے
میر اکرم نے دھماکہ کے بعد میو ہسپتال میں اپنے زخمی دوست کے ساتھ بہت سا وقت گزارا ۔ ایک سوال پر میر اکرم نے کہا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے واشگاف الفاظ میں ان سے ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت پر اپنے شبہے کا اظہار کیاتھا ۔ میں نے میر اکرم سے کہا کہ ہوسکتا ہے انہوں نے ان کا نام صرف سیاسی دباءو کے طورپرلیا ہو، اس پر میر اکرم نے کہا ’’وہ مر گیاہے، ہ میں مرناہے ۔ جو اس نے کہاتھا میں نے آپ کو بتادیا، اس کے سوا انہوں نے کسی پر اپنے شبہ کا اظہارنہیں کیا اور اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میرا کسی سے ایسا اختلاف نہیں کہ وہ میری موت کا خواہاں ہو۔ نہ میں کسی کے باپ کو قتل کیا ہے اورنہ کسی نے میرے باپ کو مارا ہے۔”
میراکرم نے کہا کہ علامہ ظہیر کی جماعت اسلامی کے رہنماءوں سے ابتداء میں دوستی تھی مگر بعد میں جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کے حوالے سے جماعت سے اختلاف ہوا ۔ اس کے علاوہ ’’جمعیت اہلحدیث کی حالیہ تنظیم نو سے جماعت اسلامی کو بہت زک پہنچی ۔ جمعیت کے تمام نئے ارکان جماعت اسلامی ہی سے ٹوٹ کر آئے‘‘ تاہم میر اکرم نے کہا کہ علامہ ظہیر نے جماعت اسلامی کے خلاف قطعاً شعبہ ظاہر نہیں کیا ۔ میرا کرم نے اس خیال کی تردید کی کہ ایران اور عراق کی جنگ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر وہ واحد پاکستانی عالم تھے جو عراق کی حمایت کرتے تھے انہوں نے کہا کہ بغداد میں ایک کانفرنس میں علامہ ظہیر،مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا عبدالقادر آزاد شریک تھے ۔ میراکرم نے یہ بھی کہا کہ عراق کے دورے کے موقع پر علامہ ظہیر ہمیشہ حضرت عباس علمدار او رحضرت امام حسن کے مزاروں پر ضرور جاتے تھے ۔ اور وہاں فاتحہ پڑھتے،وہ شیعہ فرقے کے بزرگوں کے خلاف نہیں تھے بلکہ آج کے اہل تشیع میں موجود بدعتوں کے خلاف تھے ۔
میراکرم نے اپنے دوست کی ایک یہ خوبی بھی بتائی کہ مرحوم اپنی تمام مصروفیتوں اور کاروبار کو مکمل حساب اور تفصیل درج کرنے کے عادی تھے ۔ ۲۲ مارچ تک انہوں نے خود اپنے قلم سے اپنی زندگی کے تمام واقعات درج کئے ۔
پروفیسرساجد میر
جمعیت اہلحدیث کے موجودہ جنرل سیکرٹری پروفیسر ساجدمیر نے اس بات پر شدید رد عمل ظاہر کیا کہ پولیس نے دھماکہ کے بعد چار دنوں میں علامہ ظہیر کا بیان کیوں نہیں لیا ۔ انہوں نے اسے پولیس کی رواءتی نا اہلی کی ایک مثال کی حیثیت دینے سے انکار کیا اور کہا کہ پولیس کو خطرہ تھا کہ علامہ صاحب حکومت کو ملزم ٹھہرائیں گے ۔ جب پروفیسر صاحب سے ان کا ذاتی خیال پوچھا گیا تو انہوں نے کہ دو طبقے ایسے ہیں جنہوں نے دلائل کے میدان میں علامہ احسان الٰہی ظہیر سے شکست کھائی تھی ایک تو شریعت بل کے حامی اور دوسرے ان فرقوں کے لوگ جن کے خلاف علامہ صاحب نے اپنی کتابوں میں لکھا مثلاً’’بریلوی،مرزائی اور شیعہ‘‘ ہمارا شبہ ہے کہ ان میں سے کوئی ہو سکتاہے ۔ ہم نہیں کہتے کہ ان کی اعلیٰ قیادت لازمی طور پر اس میں ملوث ہوگی مگر ہر گروہ یا فرقے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی اعلیٰ قیادت کے مشورے کے بغیر اس قسم کا اقدام کر گذرتے ہیں ۔
پروفیسر ساجد میرنے مزید کہا’’ذاتی طور پر میں شروع سے ہی یہ سمجھتا رہا ہوں کہ جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت اس قسم کے اقدام کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ۔ لیکن ان سے متعلق کچھ نوجوانوں نے اپنے طور پر اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کر لیا ہو تو اسے بعیداز قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ جنگ فورم کے مذاکرت میں شرکت کے بعد میں نے علامہ احسان الٰہی ظہیرسے پوچھا کہ ان کا ا س جملے سے کیا مطلب تھا کہ’’اگر شریعت محاذ والے 27 رمضان کو باہر نکلنے کا فیصلہ کریں گے تو ہم ان سے پہلے باہر نکلیں گے ۔ ‘‘ اس پر علامہ صاحب نے کہا کہ ’’یہ اس صورت میں اگر شریعت محاذ والے حکومت کے خلاف باہر نکلیں ،شریعت بل کی حمایت میں نہیں بلکہ حکومت کے خلاف ۔”
پر و فیسر صاحب نے کہا کہ یہ ایک سیاسی قتل ہے تاہم اسے معروف معنوں میں تخریبی کارروائی نہیں کہا جاسکتا ۔ ’’ ایک گلی کے اندر ہونے والے ایک مذہبی جلسے میں دھماکہ کرنے والے صرف تخریب کار نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پولیس کے تاخیری حربوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
راؤ رشید
اور آئیے اب سنتے ہیں علامہ احسان الٰہی ظہیر کے سیاسی دوست اور ایک سابق انسپکٹر جنرل پولیس پیپلز پارٹی کے رہنما راءو رشید کی رائے ۔ وہ بولے ’’یہ1984-85ء کی بات ہے جب میں ایم آرڈی کا سیکرٹری جنرل تھا اور ہم نے ریفرنڈم کے خلاف تحریک میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کا تعاون حاصل کرنے کے لئے ان سے رابطہ قائم کیا مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ علامہ صاحب جمہوریت کے لئے جدوجہد میں پوری طرح شریک ہوئے اور ایم آرڈی میں شامل نہ ہونے کے با وجود تحریک میں بھرپور حصہ لیا ۔ وہ ایک جرات مند جوان تھے اور ان کی خطابت نے ایم آرڈی کے جلسے جلوسوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کر دیا جس سے ہمیں بڑی تقویت حاصل ہوئی وہ اعلیٰ پائے کے مذہبی عالم تھے اور روایتی ملا سے مختلف تھے وہ روشن خیال تھے اور سمجھتے تھے کہ اصل جدوجہد جمہوری اقدار کی بحالی کے لئے ہے ذاتی طور پر بہت گرمجوش،پر خلوص اور مہمان نواز شخصیت تھے ان سے جلد ہی ہمارے قریبی مراسم ہو گئے ان کا حلقہ احباب وسیع تھا اور بڑی پر تکلف دعوتیں دیا کرتے تھے ۔”
راءو رشید نے بتایا کہ حال ہی میں ایم آرڈی کے بعض دوستوں (جن کا نام لینا انہوں نے پسند نہیں کیا) نے علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شمولیت پر اعتراض کیا کیونکہ وہ جلسوں پر چھا جایا کرتے تھے ۔ ان معترضین نے کہا کہ ایم آرڈی سے باہر کی جماعتوں کے رہنماءوں کو دعوت نہ دی جائے ۔ یہ ایک اصولی نکتہ تھا جسے ماننا پڑا ۔ ’’ پھر میں ،ملک حاکمین اور سلمان تاثیر اس فیصلے کی اطلاع دینے ان کے پاس گئے مگر انہوں ننے’سپورٹس مین سپرٹ‘ سے کام لیتے ہوئے اس بات کا قطعاً برا نہیں مانا اور ہم سے مستقل تعاون کرتے رہے ۔ ‘‘ راءو رشید نے یہ بھی کہا کہ ایم آر ڈی کی توسیع کی صورت میں جمعیت اہلحدیث کی اس میں شمولیت کے پورے امکانات تھے ۔ ’’علامہ احسان الٰہی ظہیر رسمی باتوں کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں سمجھتے تھے‘‘ راءو رشید نے تبصرہ کیا ۔
راءو رشید جو محکمہ پولیس سے ایک طویل عرصے تک وابستہ رہ چکے ہیں 23 مارچ کے اس دھماکہ کو بہت سنگین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ لاہور میں کسی سیاسی جلسے میں پہلا دھماکہ ہے اس سے جمہوری جدوجہد کو نقصان پہنچے گا‘‘ راءو رشید نے مزید کہا کہ ’’ہم پولیس میں کسی بھی جرم کے محرک پر توجہ دیتے تھے ۔ اور اس بات پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی کہ جرم کے نتیجے میں فائدہ اٹھانے والا فریق کون سا ہے تاکہ جرم کے محرک اور ذمہ داروں کا اندازہ لگایا جاسکے ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کے پچھلے برسوں کی سرگرمیاں آپ کے سامنے ہیں ۔ وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے حق میں اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طوالت بخشنے والے مجوزہ شریعت بل کے خلاف مسلسل انتھک جدوجہد کر رہے تھے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے منظر عام سے ہٹنے پر اس مشن کو شدید نقصان پہنچا آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس عمل سے فائدہ کس کو پہنچا ۔”
اس سوال پر کہ ان حوالوں سے سیاست کرنے میں اور بھی بہت سی جماعتیں اور رہنما پیش پیش ہیں صرف علامہ احسان الٰہی ظہیر کو نشانہ کیوں بنایا گیا راءو رشید نے کہا ’’علامہ مرحوم بہت گرمجوش انسان تھے ۔ ان کی مخالفت میں انتہا درجے کی شدت ہوتی تھی لہٰذا ان کے مخالفین بھی اسی شدت سے ان سے خفا ہوتے تھے”
یہ ایک حیرت انگیز امر ہے کہ قلعہ لچھمن سنگھ میں 23 مارچ کی شب ہونے والے اس دھماکے کے فوراً بعدنامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک وسیع پیمانے پر جماعت اسلامی پر اس دھماکہ کا الزام عائد کیاجانے لگا جیسا کہ جماعت اسلامی کے ایک فعال کارکن نے بعد میں کہا ’’ایسا لگتاہے کہ دھماکہ کرنے اور جماعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والی پارٹی ایک ہی ہے کیونکہ دونوں کام بیک وقت ہوئے ۔ ‘‘ اور یہ بات درست تھی ۔ دھماکہ سے ایک گھنٹہ بعد ہی میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ایک ادھیڑ عمر شخص نے کہا ’’میرا ایک بھائی اور ایک بیٹا اس دھماکہ میں نزخمی ہوئے ہیں ، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ دھماکہ جماعت اسلامی نے کرایا ہے ۔ ‘‘ اس موقع پر مسلم لیگ کے ملک قاسم بھی موجود تھے جو دھماکہ کی اطلاع ملتے ہی ہسپتال پہنچ گئے تھے ۔
اس سے پہلے کہ میں اس الزام لگانے والے شخص سے اس کے اس خیال کی وجہ پوچھ سکتا ایک نوجوان نے تیز لہجہ میں اس کو ڈانٹا اورکہا کہ ’’جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت ہے،کوئی تخزیب کار یا دہشت پسند تنظیم نہیں ، آپ کو کسی پر اس طرح الزام عائد نہیں کرنا چاہیے ۔ ‘‘ فضاتلخ ہوتے دیکھ کرملک قاسم نے دونوں کو روک دیا اور بات ختم ہو گئی ۔
مگر بات ختم نہیں ہوئی دھماکہ کے بعد سے اب تک بعض لوگ نہ معلوم کیوں جماعت اسلامی پر الزام دھرنے پر مصر ہیں ۔ وجوہات کوئی نہیں بتاتا ۔ تاہم بعض دوسرے متوازن الخیال حضرات کا رویہ مختلف ہے ۔ ایک سینئر سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف اس فوری الزام کی نفسیاتی وجوہات ہیں ۔ شریعت بل کے موضوع پر علامہ احسان الٰہی ظہیر کی جماعت اسلامی کے نکتہ نظر سے شدید مخالفت اپنی جگہ ۔ مگر اصل میں یہ اس عمومی تاثر کا نتیجہ ہے جو جماعت اسلامی سے منسلک طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تشدد اور مسلح کارروائیوں کی وجہ سے قائم ہوا ہے ۔ اور جیسا کہ پروفیسر ساجد میرنے کہا کہ کسی بھی صورت میں جماعت کی۔
اعلیٰ قیادت پر الزام عائد کرنا غلط ہو گا تاہم کچھ جذباتی نوجوانوں کی طرف سے اس کارروائی کے امکان کو بعیدا ز قیاس بھی نہیں کہا جاسکتا ۔
میں نے بہتر سمجھا کہ اس الزام پر مزید خیال آرائی کرنے اور قیاس آرائیوں کو ہوا دینے کی بجائے جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے ہی اس موضوع پرگفتگو کی جائے ۔
قاضی حسین احمد
قاضی حسین احمد،سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی سے منصورہ میں ملاقات ہوئی انہوں نے کہا ’’علامہ احسان الٰہی ظہیر میرے بھائی تھے ہ میں ان سے محبت تھی اختلاف اپنی جگہ پر، مگر وہ اختلاف بھی بنیادی نوعیت کا نہیں تھا آپ خود بتائیے اگر کسی پر اس کے بھائی کے قتل کا الزام عائد کر دیاجائے تو اس کے تاثرات کیا ہوں گے اس کے دل پر کیا گزرے گی ۔ آپ کو اس بات کا بھی علم ہوگا کہ اس حادثے پر جمعیت اہلحدیث کے بعد سب سے زیادہ اگر کسی نے احتجاج کیا تو وہ جماعت اسلامی ہے ہمارا تو ان سے قریبی تعلق تھا ۔ ‘‘
قاضی صاحب نے علامہ مرحوم کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا’’وہ بے تکلف اور کھلے مزاج کے آدمی تھے ۔ سماجی طور پر لوگوں سے تعلقات رکھتے تھے ملنا جلنا بہت تھا سارے ملک میں ان کا آنا جانا تھا ۔ پشاور بھی آتے رہتے تھے ۔ متحرک آدمی تھے ہماری طبیعتوں میں ایک طرح کی یکسانیت تھی اس کی وجہ سے ایک تعلق پیدا ہو گیا تھا ۔”
انہوں نے مزید کہا’’ان کی علمی حیثیت کا اندازہ ان کی کتابوں سے کیا جاسکتاہے ۔ ان کی کتابیں یہاں میرے پاس رکھی ہیں وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ انہیں ’’فرق‘‘ کے موضع پر تخصیص حاصل تھی اور اس میں شک نہیں کہ انہوں نے تمام فرقوں پرلکھا ۔ بریلوی، اسماعیلیہ، شیعہ سب پر ۔ اس مسئلے پر میرا ان سے اختلاف تھا ۔ مجھے ان کے علم کے تواتر پر کلام نہیں مگر اس میلان پر اعتراض تھا ۔ میں نے ایک دو مرتبہ ان سے کہا کہ ’’فرق‘‘ کے اختلاف کو اجاگر کرنے کے بجائے مختلف فرقوں کو آپس میں اکھٹا کر کے ان کے اختلاف کو دبانے اور ان کے درمیان موجود متفقہ عناصر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ان کی طبیعت میں جو لچک تھی اس کی وجہ سے میری باتوں کو تسلیم کر لیتے تھے میری بات مان لیتے تھے اور اسی حوالے سے وہ پاکستان میں مختلف لوگوں کے آپس میں اشتراک عمل میں بھی دلچسپی رکھتے تھے شریعت محاذ کے سلسلے میں میری ان سے ملاقاتیں ہوئی تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایسی جماعتیں جنہوں نے ریفرنڈم میں حصہ نہیں لیا اور جو ایوان اسمبلی سے باہر ہیں مثلا جمعیت علمائے پاکستان، مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام،ان سب کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنایا جائے قاضی حسین احمد نے کہا کہ ہم نے شریعت محاذ بنایا ہے اور ہم بھی اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دینی جماعتیں اس پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائیں ۔ اس سلسلے میں بات چیت ہوتی رہتی تھی ان کی اپنی ایک رائے تھی ہماری اپنی رائے تھی یہ میں نے اس لئے عرض کیا کہ باوجود اس کے کہ انہوں نے ’’فرق‘‘ پر کتابیں لکھیں جس کے نتیجے میں ان کی تحریر میں فرقہ وارانہ اختلاف نمایاں ہوئے لیکن سیاسی میدان میں وہ اس بات کے قائل تھے کہ آہستہ آہستہ ایک اجتماعی پلیٹ فارم بنا لیا جائے ۔
اس سوال پر کہ ’’کہا جاتا ہے کہ جمعیت اہلحدیث کی چند سال قبل کی تنظیم نو سے پہلے تک اہلحدیث افراد کی اکثریت جماعت اسلامی میں نتھی اس سے ظاہر ہوتاہے کہ جمعیت اہلحدیث اور جماعت اسلامی میں مسلک سے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ‘‘ انہوں نے کہا ’’اصل میں جمعیت اہلحدیث ایک خاص مکتب فکر کانام ہے ۔ یہ حضرات غیر مقلد ہیں یعنی فقہی مسلک میں تقلید کے قائل نہیں ہیں جبکہ
جماعت اسلامی تو دعوت دین کی ایک تحریک ہے جس میں تمام مکاتیب فکر کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں جماعت اسلامی کسی مخصوص فقہی مسلک کی پابند نہیں ہے ۔”
“یعنی آپ کا جمعیت اہلحدیث سے اختلاف صرف سیاسی نوعیت کا تھا شریعت بل کے موضوع پر؟‘‘
’’وہ بھی آخر میں سب نے دیکھ لیا کہ جنگ کے مذاکرے میں کہ اختلاف شریعت پر نہیں تھا بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ حکومت سے اس کا مطالبہ درست نہیں ہے بلکہ اس کے مقابلے میں تحریک چلا کر ہی اس منزل تک پہنچا جا سکتا ہے اسی لیے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب آپ تحریک شروع کریں گے تو جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا خون گرے گا ۔ ‘‘
میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا ’’جنگ کے مذاکرے میں کہا جانے والا ان کا اصل جملہ یوں تھا(جس کا ٹیپ موجودہے)
’’قاضی صاحب! ہم آپ کا 27رمضان تک انتظار کریں گے آپ باہر نکلیں ،تبدیلی کے لئے ۔ جس دن آپ27 رمضان کو نکلنے کا فیصلہ کریں گے، تو نکلنے والوں میں سب سے پہلے ہم ہوں گے ۔ نکلنے کا فیصلہ آپ کر لیں تب تک ہ میں چھٹی دے دیں ۔”
تاہم قاضی صاحب نے کہا ان کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ27 رمضان کی تاریخ آپ نے دی ہے اس کے بعد ہم تحریک چلائیں گے اگر آپ تحریک چلائیں گے تو جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا خون گرے گا یعنی ہم پیش پیش ہوں گے ۔ ان کا اس بات سے مقصد یہ تھا کہ جب حکومت کے خلاف شریعت کے نفاذ کے لئے تحریک چلے گی تو وہ اس میں شریک ہوں گے ۔
قاضی حسین احمد سے سوال کیا گیا ،کہاجاتاہے کہ افغانستان کے علاقے نور ستان میں جمعیت اہل حدیث کی حکومت ہے کیا آپ کے خیال میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کا اس معاملے سے کوئی ایسا تعلق تھا جس کے رد عمل کے طور پر افغانستان یا روس کی طرف سے ان کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی جا سکتی تھی؟”
قاضی صاحب نے جواب دیا ’’نور ستان ایک وسیع علاقہ ہے جس میں کئی کمانڈر ہیں ان کا تعلق مختلف حلقوں سے ہے مثلاً حزب اسلامی،جمعیت اسلامی ۔ ان میں ایک گروپ کے کمانڈر مولوی افضل ہیں جو اہلحدیث ہیں مگر جمعیت اہلحدیث سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ مجھے علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ایسے کسی تعلق کا علم نہیں اور میں اس امکان کو قرین قیاس نہیں سمجھتا ۔ پھر اس سلسلے میں تو سب سے زیادہ منظر عام پرہم لوگ ہیں ان کو سب سے پہلے ہ میں نشانہ بناناچاہیے تھا البتہ میں اس امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کرتا اورظاہر ہے یہ جو تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں یہ ان لوگوں کی طرف سے ہو رہی ہیں جو پاکستان کے اندر بیرونی ایجنٹ ہیں اور بے چینی انتشار اور غیر یقینی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔”
قاضی حسین احمد نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا’’یہ سیاسی قتل تھا یا تخریبی کارروائی ۔ دونوں صورتوں میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مجرموں کو جلد گرفتار کر کے سزا دے ہم اب تک کی تفتیشی کاروائی سے مطمئن نہیں کیونکہ اتنے دن گزرنے کے با وجود مجرموں کا سراغ نہیں مل سکا ۔ یہ بات اس لئے بھی پریشان کن ہے کہ اس دھماکہ کے بعد دوسری مذہبی جماعتیں بھی خطرے کی زد میں ہیں ۔ ‘‘
قاضی عبدالقدیرخاموش
جمعیت اہل حدیث یوتھ فورس کے جنرل سیکرٹری قاضی عبدالقدیر خاموش نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ’’آغاز میں ہمارا خیال تھا کہ اس حادثہ کی وجہ علامہ صاحب کی شریعت بل کی مخالفت تھی ۔ وہ تنہا آدمی تھے جنہوں نے پورے شریعت محاذ کو میدان سے بھگایا ہوا تھا اور ان دنوں ان کی شریعت محاذ سے مخالفت اپنے عروج پر تھی ۔ یہ میرا فوری ردعمل تھا اور بالخصو ص میں اس معاملے میں بہت متشدد تھا ۔ ‘‘
میں نے ان سے ان کے اس خیال کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا’’یوں تو جب سے جمعیت اہل حدیث نے اپنا سیاسی محاذ بنایا ہے اس کی جماعت اسلامی سے محاذ آرائی ہے ۔ علامہ صاحب کی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ بننے رہنے سے قبل کا وقت وہ تھا جب جمعیت اہل حدیث کے لوگوں کو جماعت اسلامی نے بطور خام مال کے استعمال کیا لیکن اب وہ تمام لوگ اپنے اصل پلیٹ فارم پر آگئے تھے جس کی بہرحال جماعت اسلامی کو پریشانی تھی ۔ ‘‘
قاضی عبدالقدیر خاموش نے مزید کہا ’’یہ بھی درست ہے کہ علامہ صاحب کے سعودی عرب میں نتعلقات سے وہاں جماعت اسلامی کے مفادت کو نقصان پہنچا تھا ۔ ان سے پہلے جمعیت اہل حدیث کے پاس ایسا کوئی موثر رہنما نہیں تھا جو اپنا نقطہ نظر وہاں پہنچا سکتا مگر ہ میں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی شواہد نہیں ملے اور جب ہم نے اپنے ذراءع سے تفتیش کو آگے بڑھایا تو ہ میں یقین ہو گیا کہ اس سلسلہ میں ایک مخصوص مذہبی فرقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ پولیس افسروں کو استعمال کیا گیا کیونکہ علامہ صاحب نے اس مذہبی فرقہ پر اپنی کتابوں میں زبردست تنقید کی تھی اور ان کے جواب میں ایک اسلامی ملک سے اب تک چارکتابیں ایسی آچکی ہیں جن میں علامہ صاحب پر براہِ راست تنقید کی گئی ہے ۔ ‘‘
قاضی عبدالقدیر خاموش اپنے نام کی طرح پچھلے چند ماہ تک خاموش رہے تھے تاہم اس حادثہ میں جمعیت اہل حدیث اور یوتھ فورس کی صف اول کی تمام قیادت شہید ہوگئی تواس نوجوان نے فوراً تمام ذمہ داری سنبھالی اور انتہائی تیز رفتاری سے ملک بھر کے مختلف شہروں کے دورے کئے اور وہاں انتہائی جوشیلی تقریریں کر کے یہ ثابت کیا کہ جمعیت اہل حدیث میں اہل اور فعال افراد کی کمی نہیں ۔
تاہم اس بات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس حادثہ سے پہلے یہ نوجوان فعال نہیں تھا ۔ قاضی عبدالقدیر خاموش کچھ عرصہ پہلے نورستان میں آزاد افغانستان ریاست کا دورہ کر کے آئے تھے تاہم قاضی حسین احمدکی وضاحت کے بر عکس قاضی عبدالقدیرخاموش اس بات پر مصر تھے کہ نورستان میں جمعیت اہل حدیث کی حکومت ہے اور اس کا نظم و نسق وہاں کی جمعیت اہل حدیث کے ہاتھ میں ہے ۔ اگرچہ اس بات کی انہوں نے بھی تصدیق کی کہ اس تنظیم کا پاکستان کی جمعیت اہل حدیث سے کوئی تعلق نہیں ۔
دھماکہ میں پولیس افسروں کے ملوث ہونے کے بارے میں اپنے خیال کی تشریح کرتے ہوئے قاضی عبدالقدیر خاموش نے ایک پولیس انسپکٹر کی مثال پیش کی جو کہ مذکورہ مذہنی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اور دھماکہ کے وقت تھانہ راوی روڈ میں تعینات تھا ۔ تاہم بعد میں اسے یہاں سے کسی اور جگہ بھیج دیا گیا ۔ قاضی عبدالقدیر نے انکشاف کیاکہ انسپکٹر مذکورچند ماہ قبل ایک اسلامی ملک کا دورہ کرکے آیاتھا ۔
اس سیاسی دھماکے کے محرکات معلوم نہ ہوسکنے کے باعث ابھی تک کیس کا چالان پیش نہیں ہوسکا
قاضی عبدالقدیر نے اس بات پر سخت احتجاج کا اظہار کیا کہ پولیس نے میو ہسپتال میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کا بیان نہیں لیا انہوں نے بتایا کہ زخمی حالت میں چار روز میو ہسپتال رہنے کے دوران علامہ مرحوم نے تقریباً9 ہزار افراد سے ملاقات کی تھی مگر پولیس والوں نے نہ معلوم کیوں بیان لینا مناسب نہیں سمجھا ۔ شاید اس لئے کہ علامہ مرحوم کھلم کھلا حکومت کا نام لے رہے تھے ۔
۲۳مارچ کی شب قلعہ لچھمن سنگھ میں دھماکہ کے زخمیوں کو فوراً میو ہسپتال پہنچایا گیا تھا اور ڈاکٹروں نے انتہائی ایمر جنسی کے عالم میں ان کو طبی امداد فراہم کی ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کے لئے تین طبی امداد کی ٹی میں کام کر رہی تھیں ان ٹیموں کے جملہ انچارج ڈاکٹر اعجاز احسن تھے جنہوں نے مسلسل محنت کر کے علامہ ظہیر کا علاج کیا اورپھر ان کے ساتھ سعودی عرب سے بھیجے جانے والے خصوصی طیارے پر ریاض بھی گئے ۔ ڈاکٹر اعجاز احسن میو ہسپتال میں ویسٹ سر جیکل وارڈ میں انچارج سر جن ہیں او ر کنگ ایڈور ڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر پروفیسر ہیں ۔ دھماکہ کی رات زخمیوں کے ہسپتال پہنچنے کے چند منٹ بعد وہ بھی اپنے فرائض سر انجام دینے کیلئے آپہنچے تھے ۔
ڈاکٹر اعجاز احسن
ڈاکٹر اعجاز احسن نے علامہ احسان الٰہی ظہیر کے زخموں کے تفصیل بتاتے ہوئے کہا’’ان کی بائیں ٹانگ کی باہر کی سطح اوپر سے نیچے تک کھلی ہوئی تھی ۔ اگر اسے زخم کہا جائے تو پھر یہ زخم چارفٹ طویل تھا ۔ اس ٹانگ کی ہڈیاں چور چور ہو چکی تھیں ران کی ہڈی ٹھیک حالت میں تھی مگر ٹانگ اور ران کا گوشت آدھا قیمہ بن چکا تھا‘‘ ۔
’’اس کے علاوہ ان کی پیٹ اور چھاتی پر گوشت کی چادر کا بھی یہی حال تھا پٹھوں کی تین تہوں میں سے دو کے چیتھڑے اڑ چکے تھے اور پورے جسم کے زخموں میں کالے رنگ کا پاءوڈر یعنی جلاہوابارودسرایت کر چکا تھا ۔ ان کے دائیں بازو کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی، دونوں بازوءوں پر شدید زخم تھے ۔ بائیں گال پر زخم تھا جو تقریباً سوراخ کی شکل اختیار کر گیا تھا ۔”
ان سے پوچھا گیا کہ یہ تمام زخم کیا کسی سخت چیز کے ٹکرانے سے لگے تو انہوں نے کہا کہ یہ دھماکہ سے پیدا ہونے والی انتہائی دباءو رکھنے والی لہروں کے پھیلنے سے ہوا، یہ لہریں انسانی جسم میں موجود اعضائے رئیسہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں ۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا میو ہسپتال میں آنے والے 70سے زائد زخمیوں کے زخمی ہونے کی یہی وجوہات تھیں تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور بتایا کہ انہوں نے فرداً فرداً تقریباً تمام زخمیوں کا معائنہ کیا اور پھر دوسرے ڈاکٹروں کی رپورٹیں بھی ان کے علم میں تھیں سبھی زخمیوں کے جسموں پر ان تباہ کن لہروں کے اثرات تھے اور جسم پر جلا ہوا بارود چپکا ہوا تھا ۔
ڈاکٹر اعجاز احسن سے پوچھاگیا کہ کیا انہیں علامہ احسان الٰہی ظہیر یا دوسرے زخمیوں کے جسموں سے دھات کا کوئی ٹکرا ملا تو انہوں نے اس بات سے سختی سے انکار کیا اور پورے یقین سے بتایا کہ کسی بھی زخمی کے جسم میں دھات کا کوئی ٹکڑا نہیں تھا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ پولیس کی تھیوری کے مطابق بم گلدان میں موجودتھا اور پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جا ئے حادثہ سے گلدان کے ٹکڑے ملے ہیں ایسی صورت میں گلدان کے کچھ ٹکڑے زخمیوں کے جسم سے بھی ملنے چاہئیں تھے ۔ اس کا جواب بھی انہوں نے نفی میں دیا ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ ضروری تھا کہ گلدان میں بم پھٹنے کی صورت میں اس کے ٹکڑے زخمیوں کے جسموں میں پائے جاتے تو انہوں نے کہا’’جی ہاں یہ ضروری تھا مگر یہ ہو سکتاہے کہ گلدان دھات کا نہ ہو بلکہ پلاسٹک یا مٹی کا ہو‘‘ میں نے انہیں بتایا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ پیتل کا گلدان تھا اس پر ڈاکٹر اعجازا حسن نے کہا’’ میں سمجھتا ہوں یہ ممکن نہیں ہے صرف ایک صورت ممکن ہے کہ بم مٹی میں یا مٹی کے کسی گملے میں ہو اور اس کے پھٹنے پر وہ مٹی بارود میں شامل ہو کر جسم پر چپک گئی ہو ۔ کیونکہ جب بم میں موجود بارود پاءوڈر کی صورت میں زخمیوں کے جسموں میں موجود تھاتو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی دھات اگر موجود تھی تو وہ نہ ملتی ۔”
ڈاکٹر اعجاز احسن نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی تین ٹیموں نے کئی گھنٹوں کی محنت سے علامہ ظہیر کے جسم سے مردہ گوشت کاٹ دیا تھا جس کی وجہ سے انہیں ہڈیوں کی بیماری،گینگرین لاحق ہونے کے امکانات ختم ہو گئے تھے ۔ تاہم ان کے جسم کے 30فیصد یعنی تیسرے حصے پر زخم پھیلے ہوئے تھے اور یہ ایک انتہائی سنگین صورتحال تھی ۔ اتنے سارے زخموں کے ذریعے اربوں کھربوں کی تعداد میں جراثیم ان کے جسم میں سرایت کر چکے تھے جس کی وجہ سے ان کے جسم میں انتہا درجے کی انفیکشن ہوگئی ۔ اس کو آپ خون میں زہر کا سرایت کر جانا یا زہر باد کہہ سکتے ہیں ۔ بارود کا زہر ایک الگ چیز ہے بارود پھٹنے کے وقت تباہی مچاتا ہے مگر یہ انسانی جسم میں جا کر اتنا خطرناک ثابت نہیں ہوتا جتنا کہ وہ جراثیم ہوتے ہیں ۔ ان جراثیم کا پیدا کردہ زہر انسانی جسم کی قوت مدافعت کو ختم کر دیتا ہے اور کسی بھی مقدار میں انٹی بائیوٹک اس زہر کا اثر ختم نہیں کر سکتی ۔ یہی علامہ ظہیر کے ساتھ ہو ان کے جسم پر زخموں کا رقبہ اتنا زیادہ تھا اور اس میں جراثیم کی اتنی بڑی تعداد اندر جا چکی تھی کہ اس کی وجہ سے ہر دوانا کارہ ہوگئی اور ہر تدبیر بےکار ہوئی ۔
میں نے پوچھا شروع میں سننے میں آیا تھا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی بائیں ٹانگ کاٹنے کے امکانات تھے مگر بعد میں ایسا نہیں کیا گیا ۔
اس پر ڈاکٹر اعجاز احسن نے کہا’’ میں نے شروع میں ہی انہیں ٹانگ کٹوانے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ اس صورت میں ان کے بچنے کے امکانات زیادہ تھے ۔ علامہ صاحب بالکل ہوش میں تھے اور ان کی ذہنی حالت نارمل تھی ۔ انہوں نے ٹانگ کٹوانے سے انکار کیا ۔ تیسرے روز ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے ان کا معائنہ کرکے پھر یہ فیصلہ دیا مگر اس وقت تک سعودی عرب سے جہاز پہنچ چکا تھا اور ہم سب اکٹھے ریاض گئے ۔ ہم ایمرجنسی کے تمام آلات ساتھ لے کر گئے تھے ۔ ریاض کے ہسپتال میں تین سر جنوں نے ان کا معائنہ کیا اور ٹانگ کٹوانے ہی کا مشورہ دیا ۔ تاہم ایک چوتھے سرجن نے رائے دی کہ ٹانگ نہیں کاٹنی چاہنے اور یوں یہ معاملہ عدم فیصلہ کا شکار ہو گیا ۔ ‘‘
تاہم ڈاکٹر اعجاز احسن حتمی طور پر اس بات سے متفق نہیں ہوئے کہ صرف ٹانگ کا زخم ہی جان لیوا ثابت ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ علامہ ظہیر کے جسم میں موجودہ تمام زخم مہلک تھے ۔ اور یہ سبھی زخم،مجموعی طور پر جان لیوا ثابت ہوئے ۔
ڈاکٹر اعجازا حسن نے بتایا کہ میو ہسپتال میں علامہ احسان الٰہی ظہیر مسلسل ہوش میں رہے ان کا بلڈ پریشر،ٹمپریچر،نبض اور دل کی حرکت بالکل نارمل تھی ۔ تمام وقت ملاقاتیوں سے گفتگو کرتے رہے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ علامہ صاحب اس دوران پولیس کو بیان دینے کے قابل تھے اور یہ کہ انہوں نے کسی موقع پر پولیس کو ان کا بیان لینے سے منع نہیں کیا تھا ۔
انسپکٹر عبدالصمد
دھماکہ سے چند روز بعد میں پولیس کے تفتیشی افسران کی رائے معلوم کرنے کیلئے تھانہ راوی روڈ پہنچا تو وہاں تھانہ کے اس وقت کے ایس ایچ او انسپکٹر عبد الصمد سے ملاقات ہوئی ۔ (بعد میں ان کی تبدیلی ہوگئی )انسپکٹر عبدالصمدنے بتایا کہ دھماکہ کے وقت وہ اپنی گارد سمیت جلسہ گاہ کے نزدیک موجود تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے جلسہ گاہ سے صرف ایک قالین اپنے قبضہ میں لیا تھا جو کہ دھماکہ کے وقت سٹیج پر بچھا ہوا تھا ۔ میری فرمائش پر انسپکٹر عبدالصمد نے یہ قالین منگوایا ۔ اس قالین کے ایک کونے پر تقریباً ایک فٹ قطر کا گول سوراخ تھا ۔ او راس سوراخ کے کناروں کے دھاگے باہر لٹک رہے تھے ۔ میرے استفسار پر انسپکٹر نے مبہم الفاظ میں اشارتاً کہا کہ اس دھماکہ میں روس کے ملوث ہونے کے پورے امکانات ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ تھانہ راوی روڈ نے چند ماہ قبل جس ہتھوڑا گروپ کے 13 ارکان کو گرفتار کیا تھا اس کا تعلق بھی اسی ملک سے تھا ۔ اس پر انہوں نے کہاکہ انہیں اس کا علم نہیں کیونکہ اس دوران وہ ملک سے باہر، امریکہ گئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تفتیش کافی آگے بڑھ چکی ہے مگر ’’عین ممکن ہے جب ہم اصل مجرمان کے قریب پہنچ جائیں تو پھر کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے گی کہ ہم انہیں بے نقاب نہیں کر سکیں گے ۔ آپ جانتے ہیں ہمارے ملک میں کیاہوتا ہے ۔”
حافظ صباح الدین جامی
اس فیچر کی تکمیل کے آخری مرحلے پر یعنی20 مئی کو میں نے حتمی معلومات کیلئے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل حافظ صباح الدین جامی سے ملاقات کی جو شروع سے ہی خود اس کیس میں دلچسپی لے رہے تھے ۔ اور تفتیش کے تمام پہلوءوں سے باخبر رہتے ہیں ۔ یہ گفتگو سوال جواب کی صورت میں من و عن قارئین کی نذر ہے ۔
سوال ۔ اس دھماکہ کو تقریباً دو ماہ گذر چکے ہیں ۔ اب تک کیس کی تمام تفصیلات آپ کے سامنے آچکی ہوں گی اصل کہانی کیا ہے؟
جواب ۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلے ہم کئی محرکات پر غور کر رہے تھے اور کئی سمتوں میں تفتیش کر رہے تھے مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ ہماری نظریں تفتیش ایک خاص نکتے پر آگئی ہے ۔
سوال ۔ وہ کیا نکتہ ہے؟
جواب ۔ وہ نکتہ فی الحال نہیں بتایا جا سکتا ۔ اس پر ہم تفتیش کر رہے ہیں ۔
سوال ۔ گلدان میں بم رکھے جانے کی کہانی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب ۔ گلدان کی کہانی درست ہے ۔ بم گلدان میں تھا اور وہ گلدان ایک خاص موقع پر لایا گیا جب علامہ صاحب تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ۔ اس میں ٹائم بم تھا ہ میں تقریباًیقین ہے کہ یہ بم علامہ صاحب اور ان کے رفقائے کار کیلئے ہی تھا ۔
سوال ۔ کیا گلدان کے ٹکڑے جائے حادثے پر ملے ہیں؟
جواب ۔ گلدان کے علاوہ ٹائم بم کے ٹکڑے بھی ملے ہیں جن سے یہ باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔
سوال ۔ گلدان کس چیز سے بنا ہوا تھا؟
جواب ۔ پیتل کا گلدان تھا بم اس کے اندر تھا چنانچہ اس کے بہت سے ٹکڑے ہوگئے ۔
سوال ۔ یہ ٹکڑے زخمیوں کے جسموں سے بھی بر آمد ہوئے ہیں؟
جواب ۔ جی ہاں ، کچھ ملے ہیں ۔
سوال ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی زخمی کے جسم سے دھات کا کوئی ٹکڑا نہیں ملا ۔
جواب ۔ میں نے ڈاکٹرں کی رپورٹ نہیں دیکھی ۔
سوال ۔ اس جلسے کی فلم پولیس کے پاس ہے ۔ اس سے کوئی مدد حاصل ہوئی؟
جواب ۔ نہیں فلم میں زیادہ تر علامہ ظہیر کو ہی فوکس میں رکھا گیا ۔ ہم نے بعض گواہوں کو وہ فلم چلا کر دکھائی مگر اس سے کوئی مدد نہیں ملی ۔
سوال ۔ تفتیش میں اتنی تاخیر کی کیا وجہ ہے؟
جواب ۔ اس میں دیر ضرور ہوئی ہے مگر یہ تاثر نہ لیا جائے کہ پولیس خاموش ہو کر بیٹھ گئی ہے ۔ یہ درست نہیں کہ ہم بالکل لاعلم ہیں ہم نا امید نہیں ہیں یہ ظلم کیا گیاہے ظالموں کی رسی دراز ہوتی ہے مگر حساب کا دن ضرور آتاہے ۔
سوال ۔ آپ کے خیال میں اس دھماکہ کے محرکات کیا تھے ۔ یہ کوئی سیاسی قتل تھا،تخریبی کاروائی یا ذاتی دشمنی کا نتیجہ ؟
جواب ۔ ملزمان پکڑے جائیں گے تو محرکات معلوم ہوں گے فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سیاسی قتل تھا یا نہیں ۔
سوال ۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ساری دنیا جانتی ہے دھماکہ کے ملزم کون ہیں میرے منہ سے کیوں کہلوانا چاہتے ہیں ۔ آپ کے خیال میں ان کا اشارہ کس طرف تھا؟
جواب ۔ میرا خیال ہے انہوں نے ایسی بات نہیں کہی ۔
سوال ۔ آپ کے خیال میں اس دھماکہ کا راولپنڈی کے دھماکہ سے کوئی تعلق ہے؟
جواب ۔ نہیں ، اس سے کوئی تعلق نہیں ،ظاہری اور باطنی دونوں اعتبار سے راولپنڈی کا کیس سیدھا سادھا تخریب کاری کا کیس ہے ۔ اور اس میں ہم مجرمان تک پہنچ چکے ہیں ۔ عنقریب ان کی گرفتاریاں ہونے والی ہیں ۔ لیکن جب وہ گرفتار ہو جائیں گے تب اس کی تفصیل بتائیں گے ۔
سوال ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر زخمی حالت میں چار روز تک میو ہسپتال میں موجود رہے مگر پولیس نے ان کا بیان نہیں لیا ۔
جواب ۔ وہ بیان دینے کے قابل نہیں تھے ۔
سوال ۔ صحت کے اعتبارسے؟
جواب ۔ جی ہاں
سوال ۔ اس دھماکہ کے سلسلے میں کوئی گرفتاریاں کی گئیں؟
جواب ۔ کچھ لوگوں کو شامل تفتیش کیا گیا ۔ ان لوگوں کے بارے میں چھان بین کی گئی کل15 افراد تھے ۔ اور اس پورے عمل کے بعد ہی اب ہم ایک خاص نکتے کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں ۔ باقی تمام امکانی محرکات درست نہیں پائے گئے ۔
سوال ۔ شامل تفتیش لوگوں میں سے کوئی شخص مجرم ثابت ہوا ؟
جواب ۔ جی نہیں ۔ ان میں سے کسی کے خلاف جرم ثابت نہیں ہو سکا ۔ لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ انشاءاللہ اگلے دو تین ہفتوں کے اندر اندر ہم کامیاب ہوجائیں گے ۔ اصل میں ہم ایک آدمی کے پیچھے ہیں جس کا نام ہ میں معلوم ہے مگر اس کا پتہ معلوم نہیں ہو پا رہا ۔
سوال ۔ وہی شخص جو جلسہ میں گلدان لایا تھا؟
جواب ۔ جو اس تمام واقعے کے پیچھے تھا ۔ ہ میں اس کا علم ہو گیا ہے ۔ وہ ایک ہی شخص ہے ۔ اس کیلئے ہم تگ و دو کر رہے ہیں ۔
سوال ۔ کیا وہ شخص آپ کے خیال میں ایسی کوئی کارروائی پھر کرے گا؟
جواب ۔ اس کی باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ کام پھر بھی کر سکتا ہے ۔ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں باہر کے عناصر ہنگامہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاکہ یہ جو جمہوریت کا دور ہے، اور ہم جمہوریت کے جس صحیح راستے پر گامزن ہیں اس کو زک پہنچے، حالات خراب ہوں اور خوف و ہراس پھیلے ۔
سوال ۔ آپ کی گفتگو سے ظاہر ہوا کہ یہ تخریبی کاروائی تھی ۔ مگر پہلے آپ نے کہا کہ نشانہ علامہ احسان الٰہی ظہیر صاحب ہی تھے ۔ کیایہ دونوں ذرا مختلف باتیں نہیں؟
جواب ۔ ظاہر ہے نشانہ تو ظہیر صاحب ہی تھے دوسری بات تو اس حادثے کے نتیجے میں خود بخود پیدا ہوئی ۔ بے گناہ افراد کو قتل کیا جائے تو عمومی طور پر خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے ۔ کسی مشہور و معروف لیڈر کو قتل کیا جائے تو اس کے تمام معتقدین میں خوف و ہراس اور بداعتمادی پیدا ہوتی ہے تو یہاں دونوں باتیں ایک ہی ہو جاتی ہیں ۔
سوال ۔ بم ایکسپرٹ کی رپورٹ کیا ہے؟
جواب ۔ بم ایکسپرٹ نے اپنی رپورٹ میں صر اتنا کہا ہے کہ یہ ایک خاص قسم کا آر ڈی ایچ گرینور بم تھا ۔ اندازاً اس کا وزن ایک کلو گرام تھا اور اس میں ٹائم بتانے کا آلہ بھی لگایا گیا تھا۔